Sunday, April 5, 2015


 لاہور (ویب ڈیسک) سابق وفاقی وزیر کے بیٹے مصطفی کانجو کی فائرنگ سے جاں بحق ہونیوالے نویں جماعت کے طالب علم زین کے ورثاءسے صلح کےلئے ملزم پارٹی نے پولیس کی مدد سے دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا ہے اور مقتول کے قریبی رشتے داروں کی وساطت سے انہیں ایک کروڑ روپے دینے کی پیش کش بھی کی گئی ہے تاہم مقتول پارٹی نے کسی بھی قسم کی رقم لینے اور معاف کرنے سے انکار کرتے ہوئے مقامی انچارج انویسٹی گیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے فوری تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ انچارج انویسٹی گیشن نے صلح میں کردار ادا کرنے کےلئے ملزم پارٹی سے بھاری رقم نذرانے کے طور پر وصول کر لی ہے اور وقوعے کو حادثاتی قرار دیکر ملزم کو بچانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ 
مقامی اخبار روزنامہ خبریں کے مطابق جنوبی چھاﺅنی کے علاقہ میں چند روز قبل سابق وفاقی وزیر کے بیٹے مصطفے کانجوکی اندھا دھند فائرنگ سے راہ گیر طالب علم زین اس وقت قتل ہو گیا جب مصطفے کانجو اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جنوبی چھاﺅنی کے علاقے سے گزر رہا تھا اور مقتول کی موٹر سائیکل گاڑی سے ٹکرائی جس پر اس ملزم نے اپنی کلاشنکوف سے اس پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ جبکہ ایک راہ گیر اس دوران زخمی بھی ہو گیا۔ اس افسوسناک وقوعے کے بعد مقامی لوگوں نے ملزم کا گھیراﺅ کر کے اسے قابو کر لیا اور ٹریفک پولیس کی مدد سے اسے مقامی پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
 متاثرہ خاندان وقوعے کی اطلاع پا کر جب موقع پر پہنچے تو لخت جگر کی ہلاکت پر انہوں نے سڑک بلاک کرتے ہوئے بااثر ملزم کے خلاف اپنے بے گناہ بیٹے کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرتے ہوئے اسے قرار واقعہ سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ پہلے تو مقامی پولیس ملزم کے خلاف کارروائی سے انکاری تھی تاہم مقتول پارٹی کے مسلسل احتجاج پر ملزم کے خلاف مقدمہ تو درج کر لیا گیا تاہم پولیس اس کی رہائی بارے منصوبے بنا رہی تھی کہ سی سی پی او لاہور نے مقدمے کی تفتیش کو میرٹ پر کرنے کے احکامات جاری کئے جس پر مقامی پولیس کو بالآخر ملزم کی گرفتاری ڈالنا پڑی اب جبکہ ملزم کو باضابطہ طور پر گرفتار کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔ ملزم پارٹی کو خدشہ ہے کہ اب وہ سزا سے بچ نہیں پائیں گے جس پر انہوں نے مقامی انچارج انوسٹی گیشن سے کردار ادا کرنے اور صلح کروانے کی غرض سے اسے بھاری نذرانہ دینے کی پیش کش کی جس پر مقامی انچارج انوسٹی گیشن نے ملزم اور مدعی پارٹی کے درمیان صلح کی حامی بھر لی ہے اور معلوم ہوا ہے کہ انچارج انوسٹی گیشن نے مقتول پارٹی کو تفتیش مکمل کرنے کے بہانے تھانے بلوا کر کہا ہے کہ ایسے واقعات حادثاتی تصور کیے جاتے ہیں اور اکثر اوقات ملزم پارٹی کو عدالتوں سے ریلیف مل جاتا ہے۔ اگر ملزم پارٹی اس قتل میں دیت کے طور پر تقریباً ایک کروڑروپے دینا چاہتی ہے اگر آپ لوگ لے لیںتو اس میں کوئی بری بات نہیں ہے تاہم اگر وہ صلح نہ کرنا چاہیں تو پولیس یہ کام زبردستی تو نہیں کرسکتی۔ 
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم پارٹی اور انچارج انوسٹی گیشن کے درمیان اس قتل پر معاملات طے پا گئے ہیں اور انچارج ا نوسٹی گیشن نے انہیں ہر طرح کی یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ملزم کو سزا سے بچا لے گا۔ اس یقین دہانی کے بعد ملزم پارٹی نے انچارج انوسٹی گیشن کو مبینہ طور پر بھاری نذرانہ بھی ادا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے انچارج انوسٹی گیشن سب انسپکٹر امتیاز شاہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ محض الزام ہے اس نے میرٹ پر تفتیش کرنی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ملزم مصطفی کانجو کی وہ رائفل جو فائرنگ میں استعمال ہوئی پولیس نے قبضے میں لے لی ہے۔ ملزم کے حوالے سے پتہ چلا ہے کہ انوسٹی گیشن پولیس نے اسے ہر طرح سے سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں۔ موبائل فون بھی ملزم کے ا ستعمال میں بتایا گیا ہے اور ملزم کے اہل خانہ بھی چوبیس گھنٹے اس سے رابطے میں ہیں۔ علاوہ ازیں مقتول زین کی والدہ نے چیف جسٹس پاکستان اور آئی جی پولیس پنجاب سے ملزم کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ سب انسپکٹر امتیاز شاہ ملزمان سے ساز باز ہے اور وہ ان کی تفتیش پر اثر انداز ہو کر ملزم کو ریلیف دینا چاہتا ہے اسے فوری طور پر تبدیل کر کے کسی ایماندار افسر کو انچارج انوسٹی گیشن لگانے کی اپیل کی ہے۔ ذرائع کے مطابق انچارج انوسٹی گیشن کی شہرت اچھی بیان نہیں کی گئی اور معلوم ہوا ہے کہ یہ کرپشن کے الزام میں متعددبار تبدیل اور معطل بھی ہو چکا ہے۔ صلح کیلئے ملزم پارٹی نے مقتول کے رشتے داروں کے ذریعے دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا۔ 

0 comments:

Post a Comment